Skip to product information
1 of 1

2 Books set Riyasat + The Prince ریاست + بادشاہ

2 Books set Riyasat + The Prince ریاست + بادشاہ

Regular price Rs.950.00
Regular price Rs.1,400.00 Sale price Rs.950.00
Sale Sold out
Shipping calculated at checkout.
میکاولی کے مشہور زمانہ ناول "دی پرنس" کا اردو ترجمہ
--------بادشاہ---------
مترجم: ڈاکٹر محمود حسین
صفحات: 184
نام: ریاست
مصنف: افلاطون
زیرِ نظر دلچسپ کتاب دُنیا کے عظیم فلسفی افلاطون کا وہ نظریہ ہے جو ڈھائی ہزار سال بعد بھی دُنیا کے ہر خطّے میں، ہر تعلیمی ادارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ دُنیا کی شاید ہی کوئی ایسی زبان ہو جس میں ’ریاست‘ کا ترجمہ نہ کیا گیا ہو۔ علم سیاست کی کلید ہی یہ نظریہ ہے۔ برٹرینڈ رسل کے بقول ”اتنی صدیاں بیت گئیں لیکن انسانی فکر و دانش پر افلاطون اور ارسطو کے خیالات و افکار اتنے گہرے ہیں کہ انھیں انسانی فکر کی مرکزیت حاصل ہو چکی ہے۔
عمومی طور پر سیاست اور ریاست کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں کو خشک سمجھا جاتا ہے لیکن ’ریاست‘ نہایت دلچسپ ہے۔ مکالمہ کے انداز میں لکھی گئی، اس میں کہانی جیسا مزہ ہے۔ اس میں ہر اُس موضوع پر بات کی گئی ہے جس سے ایک انسان کو اپنی زندگی میں واسطہ پڑتا ہے، حتیٰ کہ موت کے بعد کی زندگی سے متعلق بھی بحث کی گئی ہے۔ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے۔ یہاں ’باب‘ کو ’کتاب‘ کا نام دیا گیا ہے۔
کتاب کا آغاز ایک تقریب جیسے ماحول میں ہوتا ہے جہاں ایتھنس کے لوگ جمع ہیں، ان میں سقراط اور گلاکن بھی ہیں، پالیمارکس، ایدیمینتس اور کلراٹس بھی۔ وہ اس محفل سے اُٹھ کر پالیمارکس کے والد سفیلس کے ہاں چلے جاتے ہیں تاکہ اس سے ذہن میں کلبلانے والے سوالات کے جوابات حاصل کر سکیں۔ سوال اٹھا کہ انصاف کیا ہے؟ سیدھے سادے بوڑھے سفیلس نے دو چار باتیں کہیں اور ان نوجوان سے کہا کہ وہ خود بھی اس پر غور و فکر کریں۔ اس کے بعد مکالمہ آگے بڑھتا ہے، اس میں کچھ دیگر لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، وہ ایک کے بعد دوسرے سوال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً تھریس میکس نامی ایک کج بحث آدمی خود غرضی کو انصاف قرار دیتا ہے لیکن سقراط کے مسکت دلائل سُن کر اس کی دانش کی ہنڈیا بیچ محفل پھوٹ جاتی ہے۔ سقراط نے انصاف کے اصل مفہوم اور منصف کی خوبیاں بیان کیں، اور سب کو قائل کر لیا۔ اس کے بعد مکالمہ آگے بڑھتا ہے۔ ریاست کی ہئیت ترکیبی اور اس کے مختلف طبقات کے تعمیر پر بات ہوتی ہے۔ قوم کا عروج بھی موضوع بحث بنتا ہے اور زوال بھی۔ اس سارے مکالمے میں سقراط کا کردار مرکزی ہوتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سقراط کے نام سے اصل میں افلاطون ہی بولتا ہے یعنی اس کتاب کا مصنف۔ وہ تعلیم دیتا ہے کہ ہم کس طرح صحیح معنوں میں فکری انداز میں اپنے آپ کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ افلاطون انصاف کو ریاست کی رُوح سمجھتا ہے، چنانچہ وہ سارے انسانوں میں یہ رُوح پھونکنا چاہتا ہے۔ وہ علم اور نیکی پر بھی بہت زور دیتا ہے۔ اگرچہ افلاطون کے پیش کردہ تصور ریاست کے مطابق آج تک کہیں کوئی ریاست قائم نہیں ہوئی، تاہم اگر اس تصور سے سبق حاصل کیا جائے تو انسانی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ جو میدان سیاست میں اُترنا چاہتا ہے، یا سیاست کو سمجھنا چاہتا ہے یا پھر سیاست پر بات کرنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ پہلے یہ کتاب پڑھ لے۔


10-Days Buyer Protection

View full details