Skip to product information
1 of 1

Bint e Dahar | Safdar Zaidi بنتِ داہر

Bint e Dahar | Safdar Zaidi بنتِ داہر

Regular price Rs.800.00
Regular price Rs.1,000.00 Sale price Rs.800.00
Sale Sold out
Shipping calculated at checkout.

بنتِ داہر” کیوں پڑھیں؟

صفدر نوید زیدی کا ناول “بنتِ داہر” آج پڑھنا شروع کیا اور ابھی مکمل ہوا۔ یہ ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کی طرح کا ایک مقصدی ناول ہے جو بیک وقت تاریخی اور سماجی دستاویز ہے۔ یہ دستاویز ایک طرف ایک تاریخی روایت کو آج سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے تو دوسری طرف بہت سی انسانی جبلتوں کو آشکار کرتی ہے۔ اِس تاریخی روایت کی ڈی کنسٹرکشن اِس لیے ضروری ہے کہ اِس پر لگی مذہب اور سماجیات کی بہت سی Toppings اِس کے جوہرِ اصلی کو خراب کرچکی ہیں اور سندھ کی روایتی رنگارنگی اب صرف میڈیا اور میلوں ٹھیلوں تک باقی رہ گئی ہے۔ تاریخی روایت کی ڈی کنسٹرکشن کا یہ کام دل لگاکر کیا گیا ہے جو یقینًا اِس ناول کا بنیادی مقصد ہے۔

بنتِ داہر” کا پلاٹ جامد نہیں ہے۔ مکالمے اِس ناول کی جان ہیں جن میں پرانی رسومات کا ذکر اور جدید روحِ عصر دونوں موجود ہیں۔ مقصدی ناول ہونے کی وجہ سے مکالمے اپنی اپنی جگہ خوبصورت Patchwork ہیں جن کی مستقل نامیاتی حیثیت بھی ہے، چنانچہ اِنھیں شارٹ فلم کی صورت میں کامیابی سے چلایا جاسکے گا اور تحریروں میں اقتباس بھی کیا جاتا رہے گا۔ سارے ناول اور مکالموں کی لفظیات حیران کن حد تک تازہ اور چست ہے۔

ناول میں مناظر کے چناؤ سے مصنف کے مقصد، منظر نگاری سے کرافٹ اور جزئیات نگاری سے ذوق کا پتہ ملتا ہے۔ "بنتِ داہر" میں یہ تینوں چیزیں بالکل سامنے رکھی ہیں۔ خلیفہ عبدالملک کی درباری مصروفیات اور بداخلاقیاں، محلاتی سازشیں، خلیفہ کے نظم و نسق اور فہم و فراست پہ تبصرے، بازاروں میں لونڈیوں کے کاروبار کی لونڈہار مچنا، محمد بن قاسم کا عبرت ناک انجام، وغیرہ، جیسے واقعاتی مناظر اِس ناول کا غالب حصہ ہیں۔ منظر نگاری میں عورتوں کا اپنے جسم کے اعضا کی ثنا بیان کرنا اور لبھانا نہایت زور شور سے ملتا ہے۔ رہی جزئیات نگاری، تو ناول میں سیکس کے بے باک منظر بھی موجود ہیں۔ یہ تسلیم کہ قارئین کے ذوق اور پسند کے پیشِ نظر ایسا مواد دلچسپی کے لیے شامل کیا جانا ضروری ہوتا ہے لیکن یہاں تڑکہ ذرا زیادہ ہوگیا ہے۔ ناول کے لفظیاتی اسلحے کے معائنے سے یہ تاثر بنتا ہے کہ خلیفے کا دربار، اُس کی فوجیں و کارندے، اور بالفاظِ دیگر ساری دنیائے اسلام، یہی کچھ کر رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ یکرخی تصویر اور انصاف سے بعید بات ہے۔

مقصدی ناول کی اہم ترین خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اُس میں تصویر کا دوسرا دکھانا ضروری ہی نہیں ہوتا۔ عام سمجھ کی بات ہے کہ جب ریاستوں کا حجم بڑھتا ہے تو اُن کو وسائل کی قلت کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے میں جنگ کا مقصد لوٹ مار نہیں بلکہ اپنی تجارت کو محفوظ کرنا ہوتا ہے۔ اُس وقت کی عرب ریاست کو یہی مسئلہ درپیش تھا۔ چنانچہ جاننا چاہیے کہ سندھ پر عربوں کے حملے کے تناظر میں محمد بن قاسم تو محض بیانیے کا مجاہد تھا۔ اصل قصور اُس کا نہیں اُس کے بھیجنے والوں کا تھا۔

سنجیدہ تحفظات کے ضمن میں صرف ایک چیز لکھتا ہوں۔ “بنتِ داہر” میں ٹی ایس ایلیٹ کے ذکر کردہ “تاریخی شعور” کے بروئے کار آنے میں واضح کمی محسوس ہوتی ہے۔ داہر ڈائناسٹی کی تاریخی روایت اُس وقت کی ہے جب اسلام کی سیاسی قوت سنی اور شیعہ میں تقسیم نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی شیعہ روایت کا سیاسی نام و نشان بھی نہیں تھا۔ مصنف کے تاریخی شعور کی اِس افسوسناک کمی نے تاریخی روایت کو شیعہ مذہبی روایت بنانے کی اِس تصویر میں دھندل سی ڈال دی ہے۔ امید ہے کہ اِس ضروری پہلو کی طرف توجہ کی جاسکے گی۔

حافظ صفوان محمد

10-Days Buyer Protection

View full details