عظیم ہمالیہ کے حضور عظیم ہمالیہ کے حضور
عظیم ہمالیہ کے حضور عظیم ہمالیہ کے حضور
باقاعدہ قیمت
Rs.350.00
باقاعدہ قیمت
Rs.600.00
فروخت کی قیمت
Rs.350.00
یونٹ کی قیمت
/
فی
قمر خان
بھینس کی طرح کھلے میدانوں میں چرنے کے بعد میں نہانا نہیں بلکہ کیچڑ میں لت پت ہونا، مالیوں کے باغ سے سیب اور گالیاں کھانا، دھوپ میں لیٹ کر جگالی کرنا اور سر شام ماں کے کوسنے اور ''ڈوٹے'' کھا کر جانا۔ یہ شب روز سفر میں کوئی نہیں ہے ضرورتاً پنڈی جانا پڑتا ہے تو منگ کے مقام پرقبضہ مخالف چھڑانے کے لیے مارکھانا پڑتی اور دوچار میل رہ کر سفر کرنا بھی پڑتا ہے۔ 'آئیے جناب یہ سیٹ ہم پنڈی سے آپ کے لیے ریزرو کریں کہ آئیے تشریف سچے'۔ پہلی بار کراچی ہوا تو آغاز میں ہی غلطی ہوجانا پننتیجۃً وزیر آباد کے مقام پر ریلوے پولیس کے سامنے آیا۔ دے دلا جان چھوٹی اور دن کراچی۔اسی کے لیے چڑ کر۔ لہٰذا جب بھی سفر کیا بامر قوتی شوقیہ سفر کے ماروں سے ہماری کبھی نہیں بن پائی۔ ہمیں تو بھی لوگ چاہیں تو نام نہ دینے والے ہمارے بزرگوں کو آپ نے کھڑے کر دیا۔ کبھی آملوک یا اونچے، سوکھے ٹہنے پر گئے،کبھی ''ادھ کندی'' پر یا مکان کی چھت پر۔ کہتے ہیں ''بزرگوں پر انڈے دے رہے ہو''؟ تب سے ہم نے 'کِلیوں' کی جگہ اسکول میں اڈا دینا شروع کر دیا۔ لیکن یہ غلط فہمی ہے کہ یہ کوئی پڑھا ہوا آدمی ہے۔ نیند اور تھکاوٹ سے حالت خراب ہو جاتی ہے۔ کھانے کو ڈھانگ کا کپڑا نہیں پینے کو۔ بڑی طیاروں میں بھی پینے کے لیے چلّو بھر پانی کی لائن۔ سوسفر کے تذکرے سے جس کے نام کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اگر اسے سفرنامہ لکھنا پڑتا ہے تو خود سمجھتا ہے کہ اس پر سفر کیا گیا اور سفرنامہ بھی یورپ، امریکہ کے رنگین گلی کوچوں کی… کہ دونوں میں سے کسی کی خیرقاری یا سفرنامہ نہیں ہے یہ سفر بھی کوئی آسان نہیں ہے۔ اُبکائیاں آتا ہوں جی متلاتا ہو اور رات بھی ٹھیک نہ ہو، پرہیز سے سفر، جائی کہ قدر پر اس راستے پر نکلنے کا خطرہ نکلا جو سو ہوا، مٹی پاؤ۔ مٹی پالتے ہیں اگر بات سفر تک ہی۔ لیکن مشکل سفر کا روزنامہ بھی لکھنا۔ عام آدمی کے بس کی بات مصنف موصوف نے اپنی کتاب پر اس قدر مشقت کی ہے کہ اس کی نوک پلک سنوارنے میں کئی بار سوال ہو رہے ہیں۔ بہرحال محنت مزدوری کر لی اب تو مشقت کا میدان بدل گیا۔
کتاب پڑھ کر پہلے یہ مسلسل تنگ کرتا ہے کہ مصنف سفرنامے نے کچھ لکھا اور آپ بھی لکھ سکتے ہیں۔ لیکن جب سفر نامہ پڑھنا شروع کیا تو رائے بدلنا پڑی۔ عظیم ہمالیہ کے حضور' مصنف کی پہلی تصنیف اور خوبصورت تصنیف۔ انہوں نے کہا کہ اس سفر کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا کہ جیسے 'بیٹھوک' انسان کے دل میں پہلی بار سفر کا شوق پیدا ہوا ہے۔ بلکہ اب رہ کر یہ خیال ہے کہ آج تک ان خوبصورت چوٹیوں، گھاٹیوں ادروں کا سفر کیوں نہیں، کیوں کہ جس نے لاہور کو نہیں دیکھا۔ یہ سفرنامہ پڑھنے کے بعد ہمارا کہنا ہے کہ ہمالیہ نے کچھ نہیں دیکھا۔ ہمالیہ پر پوری دنیا کی نظریں بس ایک ہماری ہی نظر سے اوجھل ہے۔ اس سفر میں انہوں نے جو اسے قرائن کو دیکھنے کی پوری کوشش کی۔ لکھتے ہیں:
سورج بابو سر چوک سے رخصت ہو جاؤ۔ نے سفید اور سرد گھر کے درو دیوار پر سرخ چادر ڈال دی ہے۔ شرمیلیہٹ کے لیے دیکھ رہی تھی۔ہر چوٹی شام کی دلہن تھی۔ ہر ایک کا حسن دوسری سے الگ تھا۔
''ہندو کش اور قراقرم ادب سے دم ساد عظیم ہمالیہ کے دربار میں کھڑے تھے اور اس وقت کی کہانی سن رہے تھے۔ زمین پر دوسری حیات کے ساتھ آخر میں حضرت آدم ؑ کا ظہور بھی میں نے اپنے قدموں میں بکھرے ان درّوں میں اولاد آدم ؑ کو سرکشی کرتے ہوئے مرتے اور پھر ابھرتے دیکھا''۔
''اچانک نانگا پربت کے عین اوپر نیلے آسمان تلے شب کا ستارہ نمودار ہوا اور اپنی روشنی کی نوکدار کراننانگا پربت کی کوشش کرنے لگا۔ نہ چلی تو آگے ڈھیروں ستاروں کی مدد کو نکلے… تاروں کی جھلملاہٹ بڑھ رہی تھی کہ جھرمٹ کے جھرمٹ سے نکل کر آسمان پر اگر آپ یہ ستارے اپنی محفل آباد کرنے کو کہتے ہیں تو ستاروں کی انجمن تلے نانگا پربت کا منجمد بھی موجود ہے سفید نوکدار جھلملاتا ستارہ بن گیا تھا۔
مصنف نے چھوٹے اور گمنام کا تفصیلاً تعارف بھی کروایا۔ کچھ ایسی معلومات بھی شامل ہیں جن کے لیے الگ الگ ایک کتاب لکھی جا سکتی تھی جو سیاحوں کے کام آت۔مصنف نے قدرتی ماحول کی تباہی کا ذکر بھی کیا جابجا کیا اس کی تصدیق سے یہ تصنیف سفر نامے سے آگے بڑھ رہی ہے۔
ہم لوگ فطرت کے پڑوسی۔ فطرت سے جو قربت ہمیں حاصل ہے لیکن محسوس اسے جاوید نے کیا ہے۔ برف پوش چوٹیوں پر پڑنے والی روحیں سورج کی ہوں یا چاند کی، جاوید نے انہیں دیکھا اور محسوس نہیں کیا، اپنے اندرجذب بھی کیا شہرمالیہ سے اس محبت کے جسم میں خون کی مانند پھر رہی ہے وہ اسی محبت میں گرفتار ہے۔ وہاں تک رسائی حاصل ہے اور اسی کے مضبوط قوت نے اس کو اپنی روئیداد سنائی۔ جاوید نے بتایا۔ وہ ہمالیہ کے درو دیوار پر دیوانہ وارپھرا۔ دن رات پھر اس نے راتوں کو اٹھا کر سفید ہمالیہ کو چاندنی کا آنچل اوڑھے بھی دیکھا۔ صبح کاذب کے دھندل کے میں چھپا دیکھا اور اندھیری رات میں اس کو چھوا۔ اس سے سرگوشیاں بھی ہیں، اپنے دل کا حال سنایا ہے، رویا بھی ہے۔ مانگی وہ ایک ایسا مسافر ہے جس کا گریباں چاک، دامن تار تار اور دل فگار۔ وہ اپنی اس کیفیت کو بیان نہیں کر سکتا۔ بیان کر بھی نہیں سکتا۔ اور جو کچھ وہ بیان نہیں کر سکتا اس کا پیغام اس پر بلاامبالغہ مصنف کو جواب دے کر سلام پیش کرتا ہے۔ جاوید کی ایک قیمت لکھ رہا ہے اور جس کی خواہش اور مشقت سے اپنے بارے میں لکھا جا رہا ہے
آزاد کشمیر میں اردو نثر لکھنے والے چند ہی لوگ ہیں۔ یہ ایک ناخوشگوار امر ہے۔ کتاب میں کسی بھی رائے سے اس کے لیے قاصر ہوں کہ میں تو بچوں کی کاپی بھی نہیں لے سکتا۔ اتنا ضرور ہے کہ اپنی محبتوں نے دل کھول دیا ہے۔ اور یہ آنکھ ایک ہی نظر میں نظر آتی ہے۔ جاوید محبت کے راستے کاکھلی والا مسافر۔
شیئر کریں۔
10-Days Buyer Protection
مکمل تفصیلات دیکھیں