مصنوعات کی معلومات پر جائیں
1 کی 1

آواز عصر | ارشد محمود | آواز عصر

آواز عصر | ارشد محمود | آواز عصر

1 کل جائزے

باقاعدہ قیمت Rs.250.00
باقاعدہ قیمت Rs.400.00 فروخت کی قیمت Rs.250.00
فروخت بک گیا۔
چیک آؤٹ پر شپنگ کا حساب لگایا جاتا ہے۔
ارشد محمود کی آواز عصر
تحریر: لیاقت علی
ارشد محمو د پاکستان کے روشن خیال اور خرد افروزی کے داعی حلقوں میں کسی کے تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ مسلسل کئی پاکستان سے سیاسی، نظریاتی اور فکری مسائل کے بارے میں لکھ رہے ہیں۔ ان کے مسائل کے تناظر میں ایک سوچی سمجھی رائے ہے کہ وہ مدلل انداز میں بلا جھجک بیان کرتے ہیں۔ ان کی فکر ترجیحات اور ان کی اپروچ سے اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن جس کی وجہ سے وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور جس سے بہادری اور بیباکی اس کا اظہار کرتے ہیں۔ کی تحسین نہ کرنا تنگ دلی کے سوا کچھ نہیں۔
سماجی میڈیا پر وہ بہت متحرک۔ شائد کوئی دن ایسا ہو کہ ان کے بک پیج پر کوئی نئی تحریر موجود نہ ہو۔ وہ سماجی میڈیا کو نظریاتی اور سماجی تبدیلی کے لیے بہت اہم خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی تحریروں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔
چند سال پہلے تک سوشل میڈیا عوام کی ناچلیوں کی دسترس سے باہر تھا۔ ان دنوں عام الناس کو اپنے خیالات و نظریات سے روشناس کا ذریعہ کتاب ہی ہے۔ ارشد محمود نے اپنے خیالات اپنی کتابوں کی صورت میں عام لوگوں تک پہنچانے کا مشورہ دیا۔ آپ نے تین کتابیں لکھی ہیں جن میں پاکستان کی مذہبی، سماجی اور نظریاتی صورت حال کے مختلف پہلوؤں کا احترام کیا گیا ہے۔
ان کی پہلی کتاب ''خدا'' کا تصور تھا جس میں مختلف تاریخی ادوار میں ''تصور خدا'' کی ابتداء، نشوو نما اور ارتقا کا جائزہ لینے کا موقف ہے کہ ''خدا'' کا کوئی ساکت و جامد تصور نہیں ہے۔ مختلف ادوار اور مذاہب میں 'تصور خدا' مسلسل ترقی پذیر رہا ہے۔ ماضی بعید میں 'خدا' سے اور صفات کی جگہ جاتی زمانہ جدید میں ان کی طاقت بدل سکتی ہے۔
ان کی کتاب ثقافتی عورتیں اور پاکستانی معاشرہ 'جس میں دوسری سماجی پسماندگی اور اس کے نتیجے میں ثقافتی موضوع کو موضوع بنایا گیا۔ ثقافتی بحثن کے نتیجے میں جو اخلاقی بگاڑ کی پیدائش لیتا ہے ارشد محمود نے اس کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ اپنی علیحدہ کتاب 'اور ہماری قومی الجھنیں' میں ہماری تعلیم کے نتیجے میں جو مائنڈ سیٹ پر بحث ہوئی ہے اس کواپنی کا موضوع بنایا گیا ہے۔
ہمارے نظام تعلیم کی بدولت جو مائینڈ سیٹ متشکل ہوا ہے خیال ہے، حسد، ہر خوف سے، محصورت اور خودساختہ برتری اس کی نمایاں خصوصیات۔ زیر نظر کتاب 'آواز عصر' ارشد کے متفرق مضامین کا مضمون محمود۔ مضامین میں شامل کچھ مضامین تو وہ ہیں جو گائے گا مختلف جرائد ورسائل میں چھپے ہوئے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو مصنف نے اپنے فیس بک پر پوسٹ کیے ہیں۔
ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں میں جو نصاب دیا جاتا ہے اس کو بدولت اذہان سے پڑھا جاتا ہے فکری مغالطے، مبالغے، جامد عقائد میں، بہت غلط بیانی سے آلودہ خیالات اپنے جما بیٹھے ہیں۔ ضروری ہے تاکہ عام لوگوں کی بالعموم اور تعلیم یافتہ افراد کی بالخصوص سوچ، فکر کو ابہام اور فرضی قصے کہانیوں کے گورکھ دھندوں سے نجات دلائی۔ ارشد محمود کے یہ مضمون انہی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں۔
مغربی تہذیب کے بارے میں ہمارے ہاں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ مغربی معاشرہ 'جنسی بے راہ روی کا شکار'۔ زنا اور قانونی تعلق کے بغیر بچوں کی پیش کش اور خود غرضی ہمارے سامنے۔ ارشد اس تصور کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'مغرب میں عورت کی عزت محفوظ ہے کسی محمود میں نہیں ہے جو خود کو پاکباز سمجھتا ہے۔ ہوٹلوں میں بسا اوقات اجنبی لوگوں کے ساتھ روم دیکھتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی زبردستی کر لے۔
اس کے بر عکس ہمارے ہاں ایسا ممکن نہیں۔ ہمارے ہاں زنا بالجبر روزمرہ کا معمول ہیں یہاں تک کہ نابالغ لڑکیاں بھی اس پر ظلم و زیادتی سے محفوظ نہیں ہیں۔ یہاں ہر سال غیرت کے نام پر قتل عام کو ان کے قریبی عزیز ہونے کا احساس ہے۔ اکیلی خاتون کے لیے سفر کرنا جانوں کا کام۔ شرافت، حیا اور پردے کے نام پر ہمارے نوجوان جنسی مریض بنے۔ لوگ (خوشحالی سے مغرب میں) گزار رہے ہیں کہ جب مشرق میں ارشد محمود کے بقول' لوگ عذاب کے طور پر گزار رہے ہیں۔
ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی بدولت پاکستان اور بھارت کے کشمیر تین مکمل اور دو ادھ جنگی حالات ہیں۔ مسئلہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اس آواز کے بارے میں بھی ارشد محمود کی سوچ اور عملی۔ وہ پاکستانی قوم پرستی کی وجہ سے اس بات کو درست تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا موقف ہے کہ کشمیر کو الانے میں زیادہ ہاتھ پاکستان کی اشرافیہ کا ہے۔ سیاسی اور حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو ہمیشہ طول دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔ کشمیر کے عوام کو اگر کبھی یہ موقع ملا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لیں تو ارشد محمود کا خیال ہے کہ وہ دونوں پاکستان اور بھارت کے ساتھ ہمارے ساتھ آزادانہ طور پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ارشد محمود آخر کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو کشمیر کے نام پر مفسر پرستوں نے یرغمال بنایا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اور بھارت باہم بات چیت کریں اور بتدریج تمام پاکستانی امور کو حل کر لیں۔ یہ کہنا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات حقیقت پسندانہ نہیں ہیں، غیر پسندانہ حکمت عملی۔
ارشد محمود نے اپنے ایک مضمون 'ہماری ملکی اسلامی ایسٹیبلشمنٹ ہیروز' میں ان حملہ آوروں کی حقیقت بیان کی ہے کہ ہم آپ کے نوجوان کو غیر تسلیم شدہ ہیرو سمجھتی ہیں۔ ہمارے نصاب تعلیم کے صدقے جائیے جس کی بدولت ہم نے اپنے نوجوان نسل کو یہ باور کرایا کہ بیرونی حملہ آور جو حادثاتی طور پر مسلمان تھے ہمارے ہیرو۔ یہ اس تعلیمی نصاب کا پھل ہے کہ ہمارے انتظامی انتظامی ورانہ ہتھیاروں اور ہتھیاروں کو بیرونی حملہ آوروں کے ناموں سے۔
ہمارے نوجوان یہ ہیں کہ محمود غزنوی اسلام کا شیدائی اور مقابلہ تھا۔ اس نے جو سترہ ہندوستانی ہندوستانی تھے وہ 'اسلام کا پیغام لکھنے' کے لیے نہیں کہا کہ مار کی خواہش سے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمارے اسلامی مورخین نے غزنویوں کے قاتل اور ان کی حکومت کا تختہ الٹنے والا شہاب الدین غوری کو بھی مسلم اسلام قرار دے دیا۔ بیرونی حملہ آوروں کا کوئی دین ایمان نہیں تھا۔ ملا مار ہی ان کا مذہب اور قتل و غارتگری ان کا مشن تھا۔ ان کے راہنماء میں انتخاب والا خواہ مسلمان ہوتا ہے یا کوئی دوسرا مذہبی عقیدہ رکھنے والا اس کا قتل انتہائی سفاکی سے جواب دیتا ہے۔
محمود غزنوی کا کہنا ہے کہ اسلام سے محبت کا خیال ہے کہ بغداد کا بھی حشر کرنا چاہتا تھا۔ اسے ستم ظریفی نے ہی کہا ہے کہ ہماری ایس ایس ٹی نے اپنے آپ کو کنٹرول کرنے والوں کو اپنا نام بنا لیا ہے اور ہم نے اپنے آپ کو طاقتوں کے نام پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ہمارے عسکری اشتیاق کا ایک اور ہیرو احمد شاہ ابدالی نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ اس نے دلی کی اینٹ بجادی تھی اور اس سے قوم کو تہیغ کیا تھا۔ شاہت کو کیا اور ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے کی راہ ہموار کی تھی۔
ارش محمود کے یہ مضامین غیر روایتی سوچ اور فکر کے حامل ہیں۔ یہ اپنی پڑھنا پڑھنا غورو فکر کی نئی دنیا سے روشناس کراتے ہیں جیسے دنیا جو عقل، معروض اور عمل پسندی سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ مضامین ان فکری الجھنوں کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ امید ہے یہ مضمون غورو فکر کے نئے در وا کرتے ہوئے جامد عقائد میں جکڑے ہمارے معاشرے میں فکری گشادگی کا سلسلہ جاری ہے۔

10-Days Buyer Protection

مکمل تفصیلات دیکھیں