احوال عصر خواجہ فرید احوال و آثار خواجہ فریدؒ
احوال عصر خواجہ فرید احوال و آثار خواجہ فریدؒ
باقاعدہ قیمت
Rs.300.00
باقاعدہ قیمت
Rs.600.00
فروخت کی قیمت
Rs.300.00
یونٹ کی قیمت
/
فی
جناب مرزا حبیب الرحمن صاحب کا ایک شاندار علمی و تحقیقی تحفہ
"احوال و آثار خواجہ فریدؒ"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
برص کے نامور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید 23 دسمبر 1845ء کو چاچڑاں،ریاست بہاول پور میں پیدا ہواوالد کاغیر خواجہ خدا عرف محبوب الٰہی۔آپ کے آباؤ اجداد فاتحین سندھ کے ساتھ عرب سندھ میں داخل ہوئے۔ خاندان کے ایک مرید مٹھن خان کے نام سے "کوٹ مٹھن" کے نام سے ایک قصبہ آباد ہوا جہاں پہلے آپ کے اجداد نے سکوت اختیار کرنے کے بعد آپ کو چاچڑاں شریف منتقل کیا۔ چیز آپ کے والد کے انتقال کے بعد آپ کو چار سال تک شاہی محل میں نواب خاندان کے سرپرستی میں راپریاست بہاول کے نواب خاندان کے تمام افراد سے آپ کے عقیدت مند تھے۔ آپ کے مریدین میں شامل
بعد میں 13 سال کی عمر میں چاچڑن حاضر بھائی خواجہ غلام فخرالدین کے ہاتھ پر بیعت کی جو ایک بہت بڑی روحانی شخصیت تھی۔ آپ نے ان سے روحانی فیض حاصل کیا۔ بنیاد پر لنگر پارک کا اعلان آپ کو بہت سخی اور درویش صفت انسان۔ آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے پاس جو کچھ ہوتا تھا شام تک لوگوں کو بانٹ لیتے تھے اور خود گندم کی روٹی اور گائے کے دودھ سے بسر کرتے تھے۔
خواجہ غلام فرید نے اپنے روحانی تجربے کو شاعری کے عام لوگوں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا اور سرائیکی زبان کو اظہار خیال کیا۔ بڑا سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ آپ کی شاعری تصوف اور معرفت کے خزانوں سے بھری ہوئی اور اس میں تصوف کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے۔ زندگی کے ایسے معاملات کا کوئی زاویہ نہیں جس کا بھائی ان کی شاعری میں نہیں ہوا۔ اس بات سے خواجہ فریدؒ کے ہاں فکری اعتبار سے ایسا تنوع موجود ہے جو اس کے علاوہ کسی دوسرے شاعر کو نہیں دکھاتا۔خواجہ فریدؒ کی کافی کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے لفظ اور معنی کا ایک اور ہی ہے۔ جہاں آباد ہے۔ اس تما ظر میں انہوں نے جو علامتی اور استعاراتی نظام تخلیق کیا ہے اس کی بنیاد ان کے وسیب پر ہے اور اس کی وسیب کا عکس ان کے اسلوب اور بیان کی توانائی اور ابھرا کے ساتھ ہے۔
خواجہ صاحب کے کلام میں حقیقی محبت اور محبت مجازی دونوں کا سراغ مولانا شاعر ہے لیکن آپ کا حقیقی رنگ میں نمایاں اور غالب ہے۔ آپ کا نظریہ ہم اوست تھا اور آپ وحدت الوجود کے قائل ت۔ پروفیسر دلشاد کلانچوی آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب عمری کی حالت وجد میں شعر کہتے ہیں کہ آپ کو الہامی طاری ہوتی تھی تو آپ بڑی بڑی کافیاں وجد کی حالت میں محسوس کرتے تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہر وقت ”فکر سخن“ میں برابر کا معمول ہے۔
اس بارے میں حضرت علامہ اقبال خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ "جس قوم میں خواجہ فرید جیسے صوفی شاعر اور ان کی شاعری موجود ہو تو اس قوم میں محبت اور محبت کا خواب نہ ہونا چاہیے۔" عشق کا چروا بھی۔ مولانا کوثرنیازی کے بقول " خواجہ صاحب سرائیکی زبان زبان اور سرائیکی علاقے کے لوگوں کے روحانی بادشاہ ہیں اور آپ کی شاعری مولانا دلوں پر راج کرتے ہیں۔"
آپ کی وجہ یہ ہے کہ خواجہ صاحب کا کلام اپنے شاعرانہ لطافت کے لیے سرائیکی زندگی کے ہر خاص و عام کے لیے مقبول ہے کہ اُس کی امید کا پیغام آپ کے کلام کے ہر رنگ میں ایک مٹھاس اور شیرینی پائی جاتی ہے۔ جو کہ سرائیکی ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ نے صرف سرائیکی تقریب کی ثقافت کو پڑھانے والے شاعر کو بھی محبت اور بھائی چارے کا درس دیا۔
خواجہ غلام فرید کا انتقال 23جولائی 1901کو 56 سال کی عمر میں ہوا۔ ہر سال 5ربیع الثانی کو آپ کا عرس" کوٹ مٹھن" شریف میں انتہائی عقیدت سے منایا جاتا ہے اور ضلعی سطح پر عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے۔
آپ کی شاعری تصوف اور معرفت کے خزانوں سے بھری پڑی ہے۔ آپ کی دو سو سے کافیاں مطبوعہ دیوان فرید میں شامل ہیں؟ ماہر فریدیات کو سرائیکی زبان کی شاعری کا رومی قرار دیتے ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ انقلاب جس طرح رومی پیغام کے ذریعے آپ کو دلوں پر راج کرتے ہیں۔ اسی طرح خواجہ صاحب بھی اپنی آفاقی کی وجہ سے وسیب کے شاعر دلوں پر راج کرتے ہیں۔ خواجہ فریدؒ نے سات زبانوں میں شاعری کی لیکن سب سے زیادہ پذیرائی ان کے سرائیکی کلام کو ملی۔ حضرت خواجہ فرید کے شاعر سوسال کے بعد بھی سرائیکی وسیب میں پیدا نہیں ہوا۔
"احوال و آثار خواجہ فرید"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جناب انور بودلہ کی حضرت خواجہ غلام فرید پر شاندار تحقیقی کتاب ہے جو اتوار 7 فروری 2021 کو خان پور سے تشریف لیک ممتاز تحفہ علمی و ادبی سیاسی اور سماجی شخصیت برادرم مرزا حبیب الرحمن صاحب نے ہمیں انور بودلہ کی کتاب میں پیش کیا۔ ابواب"خواجہ غلام فرید اور مورخین"،"خواجہ فرید کا بعد سوم اور چار ماہر فریدیات کے مغالطے"،"تعارف ملفوظات خواجہ فرید"،"خواجہ فرید کا ایک نادر فتویٰ"،خواجہ فرید کے چاچا زاد بھائی"،"بسلہ دبستان خواجہ فرید"،"خواجہ فرید کے اسفار"،"خواجہ فرید کی تاریخ ساز"،"پیرفیض الامین فاروقی کی تاریخ ساز" ، "صاحبزادہ فیض الامینی" اور"حیات خواجہ فرید ماہ وسال میں" پر جب کہ کتاب کا اظہار تشکر جناب مرزا حبیب الرحمن اور محبوب تابش کے نام۔
جناب محبوب تابش کہتے ہیں کہ "انور بودلہ سرائیکی کھوج کے ایک فقیر منشج کار اور رسیا علم شخصیت" خواجہ فرید احوال و آثار اور "ان کی اسی کھوج اور محبت کا حصول۔" خانوا فرید کی علمی شخصیت طاہر محمود کوریجہ کی کتاب۔ "خواجہ فرید اور اُن کا خاندان" کے بعد بودلہ صاحب کی یہ کتاب اپنی اہم کتاب کو شمار کرتی ہے اور انور نے کہا کہ عرق ریزی اور فشانی سے آخرکار۔
حضرت خواجہ غلام فرید کے بارے میں مولوی عبدالرشید ارشد کی ایک تحریر میں گرفت کرتے ہوئے انور بودلہ صاحب نے لکھا ہے کہ "مریدان تسمہ پا نے کیا گلائے ہیں، مولوی عبدالرشید ارشد کو درست کرنے والے مسخ کرتے ہوئے اس کی کوئی حد ہوتی ہے۔ بالا بالا واقعہ میرے مضمون میں تحریر ہے ۔مضمون نگار قیامت والے دن اپنے ممدوح حضرت علامہ انور شاہ جاٹ کشمیری کیسے پہنچیں گے ۔۔۔۔اصل میں جب فرقہ پرستی دماغ پر غالب آجائے گا تو تہذیب کا دامن چھوٹ جاتا ہے۔
عبدالرشید ارشد کی ایک اور غلط بیانی کی گرفت کرتے ہوئے انور بودلہ صاحب کو آگے بڑھاتے ہوئے پورا پورا لکھتے ہوئے لکھتے ہیں "جسٹس محمد اکبر خان کی تحریر سے مترشح ہوتا ہے کہ موصوف جج علمائے دیوبند کے طویل بیانات سے مطمئن نہیں ہوا۔ ۔جج موصوف اگر مطمئن ہوئے تو علامہ غلام احمد پرویز (جسے عرف عام میں منکر حدیث نیچری دہریہ کافر تک کہا جاتا ہے) کے مضمون، اس مضمون کی بنیاد پر میاں محمد اکبر خان جسٹس محمد اکبر خان کی تحریر سے مولوی عبدالرشید ارشد کے تصوراتی محلات دھڑام سے گریز۔
کتاب کا پہلا بابخواجہ فرید اور مورخین "دراصل ہی غلط اور روایات کی شاندار علمی اور تحقیقی گرفت پر مبنی ہے۔" آپ سے کئی نئے گوشے کھولنے اور تاریخی مغالطے کو درست کرنے کی بھی بہترین کوشش۔ بے حد مشکور ہیں کہ اس کے شاندار تحقیقی تحفہ کی بدولت نہ صرف یہ ہماری معلومات میں گرانقدر ہوا بلکہ حضرت فرید کی زندگی اور شخصیت کے شخصیت سے بھی کئی اہم انکشافات سامنے آئے۔ کتاب فکشن ہاوس نے شائع کیا ہے۔
محمداحمد ترازی
مورخہ 9 فروری 2021ء کراچی
شیئر کریں۔
10-Days Buyer Protection
مکمل تفصیلات دیکھیں