جونک یا تتلیاں جونک اور تتلیاں
جونک یا تتلیاں جونک اور تتلیاں
باقاعدہ قیمت
Rs.250.00
باقاعدہ قیمت
Rs.500.00
فروخت کی قیمت
Rs.250.00
یونٹ کی قیمت
/
فی
جونک اور تتلیاں
،
کچھ تاثرات
کسی بھی تحریر کی سب سے پہلی خوبی کیا ہونا چاہیے؟ اس کا جواب کہیں کہ پہلی خوبی پلاٹ نہیں کردار نگاری ہی مرکزی خیال نہ کلائمکس یا کنفلکٹ۔ بلکہ پہلی خوبی وہ تحریر ہے جو پہلی سطر سے مکمل تحریر پڑھ کر مجبور کر دے ۔ باقی باقی جگہیں بھی اہم ہیں ان کی حثیت بھی ثانوی نہیں لیکن یہ سب بانس کی سیدھی کے پائیدانوں کی مانند ایک کے بعد دوسرے نمودار ہو کر قاری کا ہاتھ پکڑ کر اسے کسی مقام پر دینے پر ہیں۔
اگرچہ میں رولاں بارتھ کے مصنف کی موت کے مصنف سے متفق نہیں ہوں کیوں کہ تخلیق کے ساتھ سچے مصنف کا نام اور شخصیت بھی زندہ رہتی ہے۔ لیکن بہت بار تخلیق اور کردار گویا خود سے متحرک وجود کر کے مکہ سے کرتے ہیں اور دوسری قاری کو سوچنے، جواب دینے یا اپنے تاثرات لکھنے پر بھی اکساتے ہیں۔ "جونک اور تتلیاں" بھی پوری طرح سے متصف ہے۔ جہاں ہر قاری متن کے ساتھ الگ رابطہ استوار ہے۔ اگرچہ میں نقاد ہی نہیں ہوں یا کوئی اہم مصنف کہتا ہوں کہ اس کتاب پر اس کا کوئی پروفیشنل تبصرہ لکھ کر بہت بڑی بات کی ایک قاری نے ان کی تحریروں کو بہت متاثر کیا یہاں تک کہ ان کی کہانیوں اور کرداروں نے مکالمے کی ایک فضا قائم کردی۔ جہاں تک پہنچ کر ان کے کرداروں سے خود گفتگو کرتے ہوئے سوال کا جواب دیتا ہے اور سوچنے کے نئے در وا محسوس کرتا ہے۔
اگر بحث و مباحثہ تمام تحریروں کا تجزیہ تو ان میں ایبسرڈک فکشن کا تاثر بہت نمایاں ہے۔ لیکن یہ مثبتات محض ایبسرڈ نہیں بلکہ مصنف شعوری اور لاشعوری طور پر لاتعداد بطن سے معنویت کی کھوج میں بھی محسوس کرتے ہیں۔ اس معنویت کی کھوج میں ان تحریروں میں آزاد تلازمہ خیال کی پرکاری بھی ہے اور مکالمہ سے کردار بھی۔ شعور اور لاشعور گڈ مڈ بھی ہیں اور تانے بانے کی مانند بہت ترتیب سے پیوست بھی ہیں، خاموشی سے رواں دواں کی مانند پرسکون تو شوریدہ سر موجوں کے ساتھ بہت آگے ہیں۔ اور اسی تلازمہ خیال کے ساتھ بہت مہارت سے فرسٹ پرسن نیو ریٹ کے علاوہ دوسرے شخص کی داستان
اور
پہلا شخص جمع
قسم کے بیانیہ کا استعمال بھی ہے۔
اس کتاب کے افسانوں اور تصانیف میں کلامیہ گفتگو بہت مضبوط ہے اور جہاں یہ مصنف کی زبان اور پرفت کا اظہار ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ کلام یہ ہے کہ یہ کلام آزاد نہیں بلکہ اسے جواز بھی فراہم کرتا ہے۔
ان کے علاوہ بیانیہ میں دیگر لٹریری ٹولز بھی مہارت سے برتے گئے ہیں۔ کچھ افسانوں میں میجیک رئیل ازم (جونک اور تتلیاں، سیڑھیوں پہ روتا ہوا گھڑیال اور چوک میں ایستادہ لڑکا) میری فسوں بکھیرتا ہے تو بظاہر سادہ بیانیہ میں پیراڈوکس (سیمی باجی کا چوزہ)اپنی چھبتے دکھاتے ہیں، آزاد تلازمہ کی پرکاری ہے (کارنس پر گلدان میں پانی ہوا) تو پھر ِوجودی کرب کے لیے ظاہر و باطن کی کھوج میں فلسفے اور تصوف کے رنگ بھی۔ کردار نگاری کی ذیل میں مائی جھنڈی جیسے منفرد اور یادگار کردار تو ازمنہ قدیم کے دشت اور صحرا سے موت کے گھروں میں پیدا ہونے والی زندگی بھی ہیں۔
یہاں پرامن شریک وجود
’’محبت کے اسباب
بالآخر سانپ اور چوہے دونوں موت کا ذائقہ چھکتے ہیں۔ موت جو بن جانے کے خدوں میں چھپکلی کی مانند ایک کردار کر کے سامنے آتا ہے اور زندہ وجود، جس کی عفریت کاشہ بھی ہے اور فرار بھی ممکن نہیں۔ ان تلاشوں کے کئی جوگی، بدھا اور رشی منی بھی اپنے فلسفے کے ساتھ سامنے اور تخیل کے پردہ سے گزرتے ہیں۔
اس کتاب کے افسانے/ تصانیف کے کردار کے بہت متنوع ہیں جو زیرک سائیکالوجسٹ سے لے کر چالاک کباڑ تک، کھانے میں تھوک دینے والے چائنیز شیف سے لے کر چیونٹی سے انسان پھر عفریت کا میٹامارف تک .ان میں بڑی دلیلوں اور بھاری منطقوں کے ساتھ جلوہ گر شیطان بھی۔ اور اپنی ذات کی قدر سے ایک عام سا انسان بھی۔ فیصل آباد کی مائی جھنڈی بھی ہے اور شہابیے کے ساتھ آنے والا مناوات کا اکلوتا بھی۔ بھوت بھی ہیں اور سردی میں ٹھٹھر کر مرتا چوہا بھی۔ چھپکیاں بھی ہیں، روپوش ہونے والا خرگوش بھی اور حیران و سراسیمہ لنگڑا چوزہ بھی۔ آپ نہیں بلکہ ان وقتوں میں گھڑیال اور خود بھی کردار بن جاتے ہیں۔
ان کے کردار اور تحریریں مکالمہ میں کھوج کی تلاش میں تشنگی اور اس تشنگی کو مٹاتے بڑے آفاقی سمندر کی علامت بھی ہیں۔ لایعنیت بھی ہے اور معنویت بھی۔ فلاسفی بھی ہے اور زیریں پر تصوف کی آمیزش بھی۔ لیکن یہ سب عناصر مل کر تحریر کو بھاری بھرکم بنانے کی بڑی ہارمونی کے ساتھ ان تتلیوں میں تبدیلی کر رہے ہیں جو شیشے کی بند بوتلوں سے آزاد کر کے گلستاں میں چھوڑ دیں۔ اس کے بعد قاری کی اپنی صلاحیت پسند تھی کہ وہ کس تتلی کے رنگ پر جمے محسوس کرتی ہے۔
تاثرات: سبین ع
شیئر کریں۔
10-Days Buyer Protection
مکمل تفصیلات دیکھیں