مصنوعات کی معلومات پر جائیں
1 کی 1

صفر نامہ K2 | سفرنامہ کے ٹو

صفر نامہ K2 | سفرنامہ کے ٹو

باقاعدہ قیمت Rs.375.00
باقاعدہ قیمت Rs.750.00 فروخت کی قیمت Rs.375.00
فروخت بک گیا۔
چیک آؤٹ پر شپنگ کا حساب لگایا جاتا ہے۔
”کے ٹو، برفانی واڈیاں“
مصنف: ڈاکٹر محمد اقبال ھُما
فیڈبیک: محمد احسن
خدشہ ہے کہ مَیں کِس منہ سے محترم ڈاکٹر محمد اقبال ہُما کو فیڈبیک دوں؟ سورج کو چراغ کیسے دکھائے؟ ایک شاگرد اپنے ایک استاد کے سبق پر اُسے کیا رائے دے سکتا ہے؟ یہ کتاب ” جس انداز میں تحریر ہوئی ہے، اِس کے پروفیشن اِزم کا جواب نہیں ہے۔ لہذا یہ فیڈبیک تو میں دے رہا ہوں، لیکن مَن ہستم نیچ… بہرحال پھر بھی کتاب کے بارے میں کچھ لکھنا اپنی خوش نصیبی سمجھوں گا، اور میرا فیڈبیک کا مقصد ہے۔
جدید سفرنامہ ایک مختلف شکل اختیار کر لیں۔ پہلے زمانوں میں سفرنامہ میں ایک خشک رپٹ ہوتی ہے۔ سفرناموں میں خشکی کی قدیم اہم شخصیات میں سفرنامہ نگار کی شخصیت کے نرم گوشوں کا فقدان سرِ فہرست ہے۔ اُس وقت تمام توجہ جو لکھا تھا، اس پر اگرچہ قدر ہوتی تھی۔ ابنِ بطوطہ کا سفرنامہ پڑھیں تو خشکی بلکہ صحرائی روح میں اترتے محسوس کرتے ہیں، پھر بھی ابنِ بطوطہ ہمارا سرمایہ ہے جس نے ہندوستان کی تاریخ لکھی ہے جو شہنشاہوں نے خود نہیں لکھوائی، اپنی ریپوٹیشن کون خراب کرنا چاہتے ہیں۔ اب سفرنامہ ایک مختلف شکل اختیار کر لیں۔
جدید سفرنامہ میں ٹریول گائیڈ اور ناول کے درمیانا تانیرا۔ ناول میں دلچسپی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے، قاری کا وقت اچھا گزرتا ہے لیکن اس کا علم زیادہ نہیں ہوتا۔ ٹریول گائیڈ میں علم کا سمندر ہوتا ہے مگر اس سلسلے میں قاری کا مَن پیاسا رہ جاتا ہے… بہترین جدید سفرنامہ میں اِن دونوں اصناف، ٹریول گائیڈ اور ناول، کو خوشحالی انداز میں بیلنس کو پڑتا ہے۔ جو اِس میں کامیاب ہو جائے، سفرناموں کا سکندر ہوتا ہے۔ آپ نے غور کیا کہ کئی مثالیں موجود ہیں جب سفرنامہ نگار صاحب آخر ناول نگار بنا… تارڑ کی مثال بہترین ہے جس میں خالصتاً ناول لکھ کر اردو ادب میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے۔ تارڑ صاحب کے سفرناموں میں ٹریول گائیڈ سے زیادہ ناول کا عنصر تھا، اسی بہت کامیابی حاصل کرتے ہوئے بہت اہم اور بورنگ معلومات تارڑ صاحب نے ختم کر دی۔
ڈاکٹر ھُما نے بھی ٹریول گائیڈ اور ناول کی اصناف کے درمیان بہت احتیاط سے بیلنس قائم کیا ہے۔ جہاں اُن کو محسوس ہوا کہ اہم معلومات کی وجہ سے کتاب پڑھنا شروع ہو جائے گا جن کا سفر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، تو اُنہوں نے بوریت کی تنبیہہ کرتے ہوئے ابواب الگ کر دیے۔ کتاب ”کے ٹو، برفانی وادیاں“ میں اُن کا یہ اسلوب بخوبی جا سکتا ہے۔
پہلے تو میں یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں ایک سفرنامہ نگار، ایک سفر کے دوران جو ”خوش قسمتی“ ایک سفرنامہ نگار کا خواب دیکھتا ہوں وہ ڈاکٹر کو بخوبی میسر ہیں۔ جیسے نازک، بلکہ صنفِ نازک مواقع اِن کو نصیب ہوتے ہوئے یقین کرنے پر دِل ہی نہیں چاہیے۔ ایک حوصلہ مند تھا کہ نہیں ہو سکتا، لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس طرح کے مواقع کی تصاویر شامل کر کے ثابت کر دیا کہ واقعی ایسا ہوا تھا اور حاسدین کی تعداد میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بس اِسی بات سے مجھے جلن تھی کہ یہ سب ڈاکٹر صاحب یا تارڑ صاحب کے ساتھ کیوں ہوتا ہے؟ دنیا کے بعد اِس کا جواب مجھے ملا ہے کہ یہ کائنات اہلِ ذوق پر اپنے آپ کو زیادہ کھولنے کے لیے علم کو آگے بڑھاتی ہے۔ مصنفین کے حالاتِ زندگی کے لیے عوام سے یہ باشعور کائنات بہت زیادہ رکھو۔ یہ مظاہرِ فطرت… یہ پربت، دریا، جنگلات، ریگستان، بحر و خلاء… سب محبوب کائنات کے جلوے۔ اِن جلو لوگوں کی قدر کرنے والا ہی نہیں بلکہ اِن لوگوں کے سامنے بیان کرنے والے یہ کائنات بہت مہربان ہیں۔ صِرف صنفِ نازک ہی نہیں، پربتوں کے مخصوص پرائیویٹ مناظر بھی مصنف کا انتظار کرتے ہیں۔ آپ نے کہا ہے کہ عوام الناس کو بعض مصنف کے تجربے میں گھڑتے ہیں۔ الحمد اللہ یہ کائنات بھی بہت مہربان رہی جس کی تفصیل میری کتابوں میں درج ہے۔
مَیں ڈاکٹر صاحب کا ایک اور وجہ سے بھی مشکور ہوں… اُنہوں نے مجھے کافی اردو سکھائی۔ جی ہاں، ڈاکٹر صاحب ممتاز منظر کو اپنی کیفیات کی روشنی میں بیان نہیں کرتے بلکہ اردو زبان کا لفظ ”اصل تلفظ“ استعمال کرتے ہیں جو فی زمانہ دیانت داری کی طرح غائب ہو جاتا ہے۔ ذرا اِدھر دیکھیں:
غلط لفظ ہے، اصل لفظ ہے ”پیمایش“… اِسی طرح ”قائم“ غلط ہے، ”قایم“ صحیح لفظ ہے۔ گنجایش، رہایش وغیرہ وہ الفاظ ہیں جن کا تلفظ غلط العام ہو اور ڈاکٹر ھُما اِس بدعت کو ماننے کے لیے تیار ہیں۔ ایک مشہور لفظ کو پڑھ کر میں بہت حیران ہوا۔ ہم جو ”خدوخال“ لکھتے ہیں، یہ بھی غلط ہے، اصل لفظ ہے ”خط و خال“۔ اس طرح کے بے شمار الفاظ ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے عرق ریز تحقیق کے دوران ان کو ڈرِپ لگائیں دوبارہ ہوش عطا کیا ہے۔
صرف وہ ڈاکٹر صاحب ہیں… ایم بی ایس ڈاکٹر… کیوں کہ گزشتہ کتب کی طرح کتاب ”کے ٹو“ میں بھی اتنا ہی ہوم ورک کیا ہے کہ کوئی غیرِ ڈاکٹر مصنف مصنف گہرائی میں نہیں جا سکتا۔ کتاب کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ میں اردو کے ٹو پر جنی تحقیق ہو عورت تھی، ڈاکٹر صاحب نے ایک بیش بہا حصہ اس میں شامل کر دیا۔ امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے عزیز و اقربا اور احباب کے علاوہ ہماری قوم بھی اس تحقیق سے مستفید ہو رہی ہے۔
غونڈوغورو لا کیپٹیوں سے متعلق ڈاکٹر صاحب نے امت کو ڈرایا ہے جس سے کافی نوجوان اُدھر جانے سے گھبرائیں انہوں نے اصل میں یہ پیغام دیا کہ وہ وہاں سے تیار ہیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کی ایپروچ سے متفق ہوں کہ جو چیز ہو، اُس کی بات کو چھپانا نہیں۔ غونڈوغورو-لاحقیقت کوہ پیمائی کے نیچے آت میں ہے… اور کوہ پیمائی تیار مانگتی ہے… ایگ خوامخواہ غونڈوغورو کی بلندی سے آٹھ ہزاری چوٹیوں کو خواب دیکھنے کے لیے وہاں پہنچنا، پھر لینڈنگ کی زد میں آ جانا درست ہے۔ اور قسمت کو سامنے رکھنا اس سلسلے میں آپ کو معلوم ہے کہ ”ہمارے گروپ کے گروپ کے ایکسپرٹ نے غونڈولا سے اترائی کے کسی بھی وجہ سے جامِ شہادت نوش کیا ہے وہ منجھے ہوئے کوہ نورد ہیں۔ مجھے سمجھ آتا ہے کہ پیمائی کوہ نوردی کے مقابلے میں حد سے زیادہ۔ ہرمن بول نامی کوہ پیما نانگاپربت کو بغیر آکسیجن سر کر لیتا ہے لیکن چوغولیزا معصوم ہو کر چوٹی پر حادثے کا شکار ہوتی ہیں وہ دفن ہو جاتی ہیں۔ اس میں قسمت کا بہت عمل دخل ہے لیکن اپنی طرف سے گھر کو مکمل طور پر بند کرنا۔
کتاب میں کچھ جگہ جگہ ہیں جہاں میں سیاحت چاہوں گا:
صفحہ نمبر 120 پر درج ہے ”رضا اور اُس کا خبطی گائیڈ“۔ میرا خیال ہے کہ رضا خود گائیڈ تھا، شاید آپ خبطی کلائینٹ کہنا چاہتے تھے۔
ایک جگہ آپ نے ”گلوبل وارمنگ“ کو ”کائنات کا درجہ“ درج کیا۔ میرا کہنا ہے کہ آپ نے ادبی روایت کے مطابق کائنات کو دنیا کے معنی میں لیا ہے جو صحیح ہے، حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا درجہ حرارت کی ایک حالت ہے 270- سینٹی جماعت۔ دنیا کا اوسطاً درجہ حرارت بدلتا ہے۔
صفحہ 257 پر جو آخری باب ہے، اُس کے آغاز میں آپ نے جیالوجی کے مطابق زمین کی ابتدائی حالت بیان کی ہے کہ ابتدا میں یہ زمین کا گولہ ہے۔ میں نے جو ارضیات کو پڑھا ہے، اُس کے مطابق جب خلاء میں چٹانیں کششِ ثقل کے ساتھ جمع ہو جائیں تو ہمارے چٹانوں کے بچے بنوں کے تحت وہ چٹان پگھل کر لاوا بن کر لے گئے۔ نرم چنے کے لیے زمین کو گولائی عطا کرنے والا۔ اس کے بعد میں زیرِزمین گیسوں اور خلاء سے آپ کو پانی پر زمین شروع کرنا شروع ہوا جس نے زمین کو ”کُول ڈاؤن لوڈ کرنے“ میں مدد دی۔ آپ کے پاس ایک دوسرے کے قریب نہیں آئے بلکہ زیرِسطح لاوا تیر کر ایک دوسرے کے قریب آئے۔ یہ لاوا پوری زمین کا 98٪۔ اگر میں آپ کا پوائنٹ نہیں سمجھتا تو مجھے ضرور گائیڈ کیجیے
آخر میں، جو لوگ کنکورڈیا اور بیسو کیمپ میں جانا چاہتے ہیں، میرا کہنا ہے کہ ایزوبل شا کے تارڑ صاحب کے ڈاکٹر۔ ایک ڈاکٹر جو فن دو کے نام، فائدہ اٹھانے کا صحیح اور غلط طریقہ، اور دیگر لائف سینگ معلومات گر ٹپس پر خوش ہیں، اُنہوں نے کوہ نوردی کو کیسے بیان کیا ہو گا… خود ہی سمجھیں گے۔
اگلی کتاب کا شدت سے انتظار رہے ڈاکٹر صاحب کو ایک تصویر میں درہ ہیسپر پر دیکھا تھا، شاید اُسی پر کتاب لکھنے کا ارادہ ہے۔
دعاؤں اور علم کا طلبگار……… احسن۔

10-Days Buyer Protection

مکمل تفصیلات دیکھیں