مصنوعات کی معلومات پر جائیں
1 کی 1

سوچ زر سوچ زار

سوچ زر سوچ زار

باقاعدہ قیمت Rs.300.00
باقاعدہ قیمت Rs.600.00 فروخت کی قیمت Rs.300.00
فروخت بک گیا۔
چیک آؤٹ پر شپنگ کا حساب لگایا جاتا ہے۔
سوچ زار مجید ڈار کا پہلا افسانوی لفظ۔ اِن سے ابتدائی آغاز سال ایک آن لائن ویب سائٹ پر ان کا افسانہ ”حرامی“ پڑھ کر ہوا۔ اس کی باتیں فضا میں ایک حصہ جو کچھ واقعات کی طرف بڑھتا ہے اس پر طاری خوف پیدا ہوتا ہے۔ یہ کچھ اس انداز میں پیچھے کی طرف بڑھتا ہے جو اس کی فضا کو فائدہ پہنچانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
”آوارہ کتا جو بہت دیر سے کچرے میں تلاش کر رہا تھا۔ خون کی بو تھوتھنی ہوئی میں پاوتا، سونگھتا ہوا دھجی تک آن لائن۔ زمین سے بےتاب کھاتے ہیں جلد ہی ناخنوں اور پنجوں کی مدد سے نرم گوشت کے اس حرامی قوم کو چیڑ پھاڑ دیا۔ اس کے بعد ایک دو مزید افسانے پڑھے تو محسوس ہوا کہ افسانہ نگار اپنی بات کہنے اور اپنے اسلوب کے زمانے میں ایک منفرد فضا قائم کرنے کی مہارت۔ لیکن یہ جگہ ایک رخی ہے اور مخصوص ہے، جس میں تلخی ہی تلخی ہے۔ سوچ زار 2019 میں شائع ہونے والے افسانوی مجموعوں میں ایک بہترین اضافہ۔ اس کتاب میں دو سو افرادی صفحات پر مشتمل ہے جس میں مجموعی طور پر ستائیس افسانے موجود ہیں اور اسے ”فکشن ہاؤس“ نے شائع کیا ہے۔
سوچ زار کا پہلا افسانہ ابلیس و آدم و حوا کے نام سے۔ بظاہر یہ افسانہ بارگاہ ربی میں ازل کے سب سے بڑے، اور یقینی طور پر مقدمے کے روداد کے بارے میں۔ یہ ایک ظلم کی داستان ہے جو بظاہر اس سے پہلے کسی مخلوق نے اپنی جان پر نہیں کی۔ لیکن جس طرح سے یہ واقعہ ہم سے بنی مخلوق کے جہت رنگوں کی بنیاد بناتا ہے اسی طرح یہ افسانہ اس افسانوی میں ہے ۔ یہ افسانہ آدم و حوا اور ابلیس کی اس تکون کی داستان ہے جو اس دنیا میں ہونے والے حادثے کو مکمل کرتا ہے۔ خلیفہ ربی اور اس کی پسلی سے پیدا ہوا جب تک جنت میں وہ ایک جگہ کے ساتھ تھے۔ لیکن بارگاہ رب میں پیش کیا گیا اس مقدمے کے دوران آدم اور حوا کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا۔ ان کی یکتائی اب دوئی میں بدل گئی۔ اب انہیں ایک پسند نہیں بلکہ الگ الگ الگ الگ الگ الگ الگ الگ الگ الگ الگ الگ الگ الگ الگ الگ کرنے پر اپنی جگہ بارگاہ رب میں پیش کرنے کا حکم ملا۔ جس طرح بارگاہ رب میں اس مقدمے کے دوران ہوا نے اپنے تجسس کے جذبہ عزازیل کو فریب میں اعتراف کیا اور اسی طرح عزازیل نے آدم کے جذبے کے بدلے ہوا کو تجسس کو جلا دیا۔ اسی طرح روا بن جانے والا فریب اور تذلیل کو جابجا ان افسانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
افسانوں کے کردار ابن آدم کی ازلی معصومیت اور بنت آدم کی متجسسانہ فطرت کے ساتھ شیطانی وسوسوں کا شکار آپ نظر آتے ہیں، ان کے خیالات اور ان کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار ہوئے رویوں کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ جس طرح ویلز نے اپنی شہرہ آفاق نظم ”لیزر“ (فراغت) میں دنیا کے حسین رنگوں کے بارے میں کہا ہے کہ ”وی نو ٹائم ٹو سٹینڈ اینڈ سٹیر“۔ اور جس طرح کے نظم میں دنیا کے خوبصورت رنگوں اور پرسکون جذبات سے روشناس کرتا، اسی طرح فاضل افسانہ نگار نے اپنی کہانیوں اور کرداروں کے ذریعے پسے ہوئے، افلاس زدہ، کچلے گئے لوگوں کو دکھوں سے متضاد کروایا جو آس پاس ہے۔ آپ کے پاس موجود ہیں لیکن ان کے بارے میں جاننے کی وجہ سے ہم آپ کو تلاش نہیں کر سکتے۔
اس وجہ سے جب فاضل افسانہ نگار ہمیں خطا غربت سے نیچے والے لوگوں کی زندگیوں کے اندر جانے کا موقع ملا تو جھانکتے ہیں کہ ہمیں دیکھو اپنے قہقہوں پر آسائش زندگی اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غریب پر کیا بیتتی۔ یہ کردار ان کے بھٹے پر کھانے والے بکھی اور شوکے، گیلے بستر پرلیٹ کر اپنے بچوں کو سوکھے پر ڈال کر اس کی خوراک کے بارے میں سوچتی نسیم، ماں کی گندی گالیاں کھاتی منی اور کسی مہر کا شکار ہونے والی لڑکیاں۔ کے روپ میں جا بجا بکھرے ان افسانوں کا ایک وصف اس کا حسن تعمیر۔ افسانہ نگار نے بیان کیا کہ زندگی کے بہترین استعمال سے صرف رنگوں کی تصویر کشی نہیں ہوتی بلکہ غربت، افلاس، ہوس اور پیچھے چھوٹ جانے والے لوگوں سے غمگین ہونے اور تلوں سے بچ جانے والی زندگیوں کی منظر کشی ہے۔ قاری کہانی میں کھو جا تا ہے۔
”بکھی۔ کچھ تلخ“ تیسرا افسانہ ہے جو کچی بستی میں لوگ والی بکھی ہوئی سچی باتیں ہیں۔ بکھی دن کوتے پر کام کرتا ہے تو رات کو اس کی کھولی میں تعفن زدہ فضا شوکے جیسے کچی بستی کے دیگر مزدوروں کے تناؤ کو پرسکون کرنے کا مرکز بن جاتا ہے۔ یہ افسانہ بھٹہ مزدوروں کے تلخ شب و روز کرتا ہے۔ افسانہ نگار نے بکھی اور اس کی جھونپڑی کو جنسی آلہ کار بنا کر پیش کیا؟ افسانے میں بکھی کا تعارف ان لفظوں میں کروایا گیا ”بکھی بھی اسی بھٹہ بستی کا حصہ تھا۔ کالی سیاہ۔ مانو کالی کا روپ۔ بڑی کوری آنکھیں، اینٹوں کی تگاری مسلسل سر پہلی کوشش سے اندر کو دھنستا ماتھا اور مکرانی کنڈل والے چڑے کے گھونسلے سے بال۔ لیکن اس کالے سیاہ جسم سے جنسی وحشت بہت تھی جیسے صحرا میں چشمہ ابلتا۔ ناک میں تانبے کا بڑا سا بلاق پہنے، لنگی میں کسا بدن اور جب وہ اینٹیں ڈھوتی تھی تو اس کی کولہوں کی بڑھتی گرتی حرکت کو کم ہی سہار پاتے ہیں۔ آدھوں کے منہ سے رال بہ رہی ہوتی ہے اور کئی اپنی لنگی بھینچ کے رہ جاتے ہیں۔
اسی طرح تگڑی والی عورت ہی بھٹہ مزدوروں کا سہنے کی ہمت تھی لیکن شراب کے نشے میں دھت چار پانچ امیرزادوں کا بار سہارنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ کچی کھولی سے ایک این جی اور والے صاحب بنگلے تک سفر کرنے والی زندگی میں کوئی بدلاؤ نہیں آتا۔ ان بھٹہ بستیوں میں ان جی اور مافیا کی روٹی کمانے والے بھٹے مزدوروں کی سوچ اور زندگیوں میں تفوت افسانے کو مزید گہرا بناتی ہے۔ بدلے افسانے بکھیڑے تو ہمارے سامنے کم قیمت پر آتے ہیں لیکن اس طرح تمام بھٹہ مزدوروں کی زندگیوں میں ہر سو پیدا غریب اور بے بسی والی تلخیوں کو ہم بدلے ہوئے افسانے میں دیکھ سکتے ہیں۔
افسانہ "محبت کا شکار" حربی لڑکیوں کی کہانی ہے لیکن افسانہ نے جس طرح اس افسانے کا شکار کیا ہے وہ نہ صرف منفرد ہے بلکہ قاری کو متاثر کرتے ہوئے جھنجھوڑنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ ایک محفوظ سمجھے جانے والے ہوٹل کے ساتھ والے کیبن سے آتے سسکاریوں کی آواز کے بہروپ میں عزازیل کا دکھیا جال، محبت کی شکار بنت ہوا کے تجسس کو جلا بخشتا۔ اس تجسس کی اصلیت حاصل کرنے کے لیے بنت ہوا ایک ماری کا شکار تو ہو جاتا ہے لیکن ممنوع پھل کو چکھنے کی وجہ سے وہ سزا سے گزرتی ہے، وہ سزا پہلے دی گئی اس کی مانند کو حوا دی جاتی ہے۔ جس طرح حوا جنت سے روح کو چھوڑ دیا گیا تھا، اس کو حماقت کرنے کی داستان ایک سوگوار فضا بنا۔ اس کا واقعہ ایک بنت ہوا کے لیے ایک تنبیہ کے لیے تھا۔ ” عین اس لمحے جب کہتے تھے کہ اس کے نامولود کا نرخرہ چبا رہا تھا، مارہ ساز اپنے آرام دہ کی نیم تاریکی میں فون سے اپنی نئی محبوبہ کو سسکیوں والے ریستوران میں رضا مند کر رہا تھا۔ گو آدم نے سزا کے بعد بھی حوا کے ساتھ نہیں چھوڑا تھا لیکن آج دنیا میں اجتماعی غلطیوں کی سزائیں اور زیادہ تر بنت حوا کو بھگتنی ہوتی ہیں جبکہ ابن آدم کی طرح لذت حاصل کرنے کے بعد خاموشی سے پیچھے ہٹنا۔ کسی کی زندگی تباہ کرنے پر
آٹھویں افسانے کا نام ”پرایا ہاتھ“۔ افسانہ نگار نے اس افسانے میں ہی اور تکنیک کے کردار سے نیا تجربہ کرنے کی کوشش کی۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ایک مردانہ ہاتھ بنایا گیا۔ وہ ہاتھ جو موقع کی تلاش میں ہوتا ہے کہ کس طرح ایک عورت کو چھونے والا راستہ۔ وہ جب کسی نئے سیکرٹری کے جسم کو چھوتے ہوئے رازدار ہوتا ہے تو اس میں قدرے بے کی تلاش کو تلاش کیا جاتا ہے، وہ ہاتھ جب کام کرنے والے جونیر کی کمر کے گرد گھومنے لگتا ہے تو اس پیش قدمی سے جھک جاتا ہے۔ ڈر سے لبریز ہوتی ہے اور یہ ہاتھ اس قدر بے باک ہوتا ہے کہ اپنے مالک کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہاتھ کا یہ تمثیلی استعمال افسانے کو دلچسپ بناتا ہے۔ اس افسانے میں کیا تجربہ کیا گیا مزید گہرا اور زبردست ہو سکتا ہے لیکن ایسا محسوس ہوا جیسے افسانہ نگار افسانے کے مرکزی کردار کی طرح اسے ختم کرنے کی جلد میں تبدیلی۔
بہت بڑا مسئلہ۔ پاپی پیٹ کو مارنے کے انسان کو کس طرح بے بس، وحشی، بے حس اور مجبور کرنا ہے۔ افسانہ" پیٹ" جیسے ہی غریب اور بے بس ماں کی داستان۔ ماں جو اپنی اولاد کو گرمی اور حبس سے تڑپتی اور ٹھٹھرتی سردیوں میں مرتے نہیں دیکھ سکتے۔ اپنے بچوں کے لیے ایک کچی جھونپڑی ڈالنے کے لیے جس طرح کی مشقت کرنے والے بچوں کے لیے وہ ایک ماں کے شانہ بشانہ ہیں۔ میں اور غربت کی وجہ سے پیدا ہوئی بے بسی افسانہ ”لفافے کی موت“ پہنچ کر سفاکیت میں بدل جاتی ہے۔ آپ کو غربت اور بےبسی افسانہ "اپنی جہنم" میں آکر بے حسی میں بدل دیا جاتا ہے۔ سلطان کے ساتھ بیتا سفر ہمارے اجتماعی شعور پر ایک زبردست چوٹ۔ سلطان محنت کر کے عزت سے جینے والا شخص بس غربت کی وجہ سے لوگوں کی ہوس کا بن گیا۔ افسانہ ”حرامی“ انسانوں کے ساتھ حیوانوں کی آواز کے اندھے پن کو ظاہر کرتا ہے۔
اس افسانوی مجموعے میں جہاں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے ہر پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی زندگیوں کی باتیں، غم، درد اور تلخیاں بیان کی گئی ہیں، وہاں اس طبقے کی ہمت اور سفاکیت کی ظالمانہ حد کو بہت مہارت حاصل ہے۔ سے آیا اپنے حرامی نامولود نواسے کے ناک پر ہاتھ رکھ کر قتل کرتی ہوئی نانی اور اپنے بھائی کے بھائی ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر شہہرگ پر زنگ آلود قینچی پھیرتا بڑا بھائی نہ صرف سفاکیت کی بے عزتی کرتا ہے بلکہ اس کی بس بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ۔ یہ افسانے اس ظالم کی فرسودہ اقدار، روایات اور دیگر زندگیوں کو اپنی لذت کی خاطر بیان کرنے کے خلاف ایک زبردست تباہی پیش کرتے ہیں۔ ان افسانوں میں عورت کے درد کو اس قدر گہرائی سے ملتا ہے کہ زیادہ تر افسانے نسائی نقطہ نظر سے لکھتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ افسانے غربت، غربت اور بے بسی رنگوں میں رنگ کر کے ایک قومل، تعفن زدہ اور سوگوار فضا پیدا کر کے سمجھیں۔ اسی کے لیے وہ ایک خوبصورت انجام اور صورتحال پر مبنی واقعات پر مشتمل ہے جو پڑھنے کے متمنی ہیں، ان کے لیے پیش لفظ میں انتباہ ہے کہ وہ ان افسانوں سے دور ہونے کی وجہ سے انہیں غلط ہوگے۔

10-Days Buyer Protection

مکمل تفصیلات دیکھیں