3 کتابیں بھاگ بھری سیٹ | صفدر نوید زیدی | چنی جو مٹھی نہ تھی | بنت داہر
3 کتابیں بھاگ بھری سیٹ | صفدر نوید زیدی | چنی جو مٹھی نہ تھی | بنت داہر
پک اپ کی دستیابی کو لوڈ نہیں کیا جا سکا
یہ فرار بھری ناول ہے،
سید صفدر زیدی ناولسٹ، ہمارا دُور کا دوست ہے، یعنی اُدھر ولایت کسی بلاد میں بستا ہے، گھونگھے اور کیکڑے کھاتا ہے، سبزیاں بھی پیک کر دکھاتا ہے اور ہمیں ناول پڑھتا ہے۔ مَیں یہ ناول پڑھتا ہوں۔ اور قدم قدم پر طاقتور، اُن کے بنانے کے لیے، اُن کے لٹ جانے والے بچے اِس کو شرمانے کے لیے اِس ناول میں دیکھتا ہوں کہ دل کی روتی ہیں۔ ناول کا منظر کہتے ہیں کہ تماشا اُن کا دل پھٹنے سے رہ جاتا ہے، زیدی صاحب نے ناول میں ریاستی اور ملٹری کشمکش اور اُس کے نتیجے میں ایک طویل اور گہری خلیج۔ جو رویوں تک لے کر تک پہنچتا ہے اُترنے میں، جیسے فطری سلیقے سے دکھایا گیا ہے کہ ایک آرٹسٹ اِس سے زیادہ نہیں دکھایا جا سکتا، انتہائی دلچسپ، رواں اور صاف، اور برصغیر، ملا اور ملٹری کے درمیان۔ ایسا سینڈوچ نظر آتا ہے جس کے اندر صرف بارود کی غذا کی گئی ہے اور وہ دونوں کی طرف عوام کو مجبوراً کھانا پڑتی ہے۔ مجھے صفدر زیدی صاحب سے زیادہ ملاقات کا ربط نہیں، کبھی اُن کیکٹے اور جھینگے اور گھونگے کھائے ہیں۔ بس یہ ناول پڑھا ہے اور میں بے بسی کی حالت میں ہوں جس میں گھونگھے تو ایک طرف کوئی نفیس کھانے کو بھی جی نہیں رہا، میرا تربوز دو دن فریج میں رہا ہے، آج صبح زاہد کاظمی ساتھ مل کے ایک دوسرے کو مارا ہے۔ میاں زیدی صاحب، بھلے مولویوں کی گودیاں اُجڑ جائیں، گھر ویران ہو جائیں، لہو کی نہ ہو جائیں، لیکن آپ کے پاس نکلے ہوئے ملا، خالد خراسانی اور معاویہ بھائی جان لیتے ہیں، میرے ناول نہیں ہیں۔ آگہی کا نوحہ۔ مجھے آپ کو مبارک ہو، لیکن پاکستان اب نہ دیکھو، اگر آپ کو دیکھ بھال کے مارتے ہیں تو بہت پڑھتے ہیں اسی طرح بے باکیاں پر۔
علی اکبر ناطق
“ بنتِ داہر” کیوں پڑھیں؟
صفدر نوید زیدی کا ناول “بنتِ داہر” آج پڑھنا شروع کیا اور ابھی مکمل ہوا۔ یہ پانی نذیر احمد کے ناولوں کی طرح ایک مقصدی ناول ہے جو اس وقت تاریخی اور سماجی مواد ہے۔ یہ ایک تاریخی روایت ہے کہ آج مشقت کے لیے کلیدی جگہیں تو دوسری طرف بہت سی انسانی جبلتوں کو آشکار کرتی ہیں۔ اِس تاریخی روایت کی ڈی کنکشن اِس کے لیے ضروری ہے کہ اِس پر لگی مذہب اور سماجیات کی بہت سی۔ ٹاپنگز اِس کے جوہرِ اصلی کو خراب کرچکی ہیں اور سندھ کی روایتی رنگارنگی اب صرف میڈیا اور میلوں تک باقی رہ گئی ہیں۔ روایت کی ڈی کنکشن کا تاریخی کام یہ کام دل لگا کر کیا گیا جو یقینًا اِس ناول کا بنیادی مقصد ہے۔
" بنتِ دہر" کا پلاٹ جامد نہیں۔ مکالمے اِس ناول کی جان میں جن پر رسومات کا ذکر اور جدید روحِ عصر موجود ہیں۔ مقصدی ناول ہونے کی وجہ سے مکالمے اپنی جگہ خوبصورت پیچ ورک جن کی مستقل نامیاتی تنظیمیں بھی ہیں، اِس شارٹ فلم کی صورت میں کامیابی سے چلایا جائے گا اور تحریروں میں اقتباسات بھی موجود ہیں۔ خوبصورت ناول اور مکالموں کی لفظیات حیران کن حد تک تازہ اور چست۔
ناول میں فن مناظر کے چناؤ سے مصنف کے مقصد سے، منظر نگاری سے اور جزئیات نگاری سے ذوق کا پتہ چلتا ہے۔ "بنتِ داہر" میں یہ تینوں باتوں کے سامنے۔ خلیفہ عبدالملک کی درباری میدانیات اور بداخلاقیاں، محلاتی سازشیں، خلیفہ کے نظم و نسق اور فہم و فراست پہ تبصرے، بازاروں میں لونڈیوں کے کاروبار کی لونڈہارنا، محمد بن قاسم کا عبرتناک انجام، وغیرہ جیسے واقعات مناظر اِس ناول کا غالب حصہ۔ || منظر نگاری عورت میں اپنے جسم کے اعضا کی ثنا بیان کرنا اور لبھانا زور شور سے۔ رہی جزئیات نگاری، تو ناول میں سیکس کے بے باک منظر بھی موجود ہیں۔ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ قارئین کے ذوق اور پسندیدگی کے لیے ایسے مواد کو شامل کرنے کے لیے ضروری ہے لیکن یہاں تڑکہ زیادہ پیش کیا گیا ہے۔ ناول کے لفظیاتی اسلحے کے معائنے سے یہ تاثر بنتا ہے کہ خلیفے کا دربار، اُس کی فوجیں اور کارندے، اور بالفاظِ دیگر ساری دنیا اسلام، کچھ کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ یکرخی تصویر اور انصاف سے بعید بات ہے۔
مقصدی ناول کی اہم ترین خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اُس میں دوسری تصویر دکھانا ضروری نہیں ہوتا۔ عام سمجھ کی بات ہے کہ جب ریاستوں کا حجم بڑھتا ہے تو اُن کو وسائل کی قلت کا سامنا ہوتا ہے۔ میں جنگ کا مقصد نہیں مارتا بلکہ اپنی تجارت کو محفوظ کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت کی عرب ریاست کو مسئلہ درپیش۔ آپ کو جاننا چاہیے کہ سندھ پر عربوں کے مرکزی دفتر میں محمد بن قاسم تو بیان کا مقابلہ کریں۔ اصل قصور اُس کا نہیں اُس کے بھیجنے کا کہنا ہے۔
صرف ایک چیز لکھتا ہے۔ "بنتِ دا" میں ٹی ایس ایلیٹ کا ذکر "تاریخی شعور" کے بروئے کار میں واضح کمی محسوس ہوتی ہے۔ داہر ڈائیسٹی کی تاریخی روایت اُس وقت کی ہے جب اسلام کی سیاسی طاقت سنی اور شاخ میں تقسیم نہیں ہوئی بلکہ اس روایت کا سیاسی نام اور نشان بھی نہیں ہے۔ مصنف کے تاریخی شعور کی اِس افسوسناک کمی نے تاریخی روایت کو مذہبی روایت بنانے کی تصویر میں دھندل سی ڈالی ہے۔ امید ہے کہ اس پہلو کی طرف توجہ کی طرف توجہ
حافظ صفوان محمد
فروری 2023
شیئر کریں۔
10-Days Buyer Protection
مکمل تفصیلات دیکھیں