مصنوعات کی معلومات پر جائیں
1 کی 3

اتھاسکی لاہور | مدثر بشیر | اتہاسک لاہور | مدثر بشیر

اتھاسکی لاہور | مدثر بشیر | اتہاسک لاہور | مدثر بشیر

باقاعدہ قیمت Rs.1,200.00
باقاعدہ قیمت Rs.2,000.00 فروخت کی قیمت Rs.1,200.00
فروخت بک گیا۔
چیک آؤٹ پر شپنگ کا حساب لگایا جاتا ہے۔

لاہور کی تاریخ پر ایک طالب علم کی حکمت عملی سے کام کرتے ہوئے سال بیت جاتے ہیں۔ گلیاں گھومتے، پرانی عمارات کو گرتے، آپ کو دیکھا، کئی مزاروں پر جا کر گزرتے ہوئے مدفون خزانوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اپنی دانست میں جو بن کر، مناظر کو پچھلی تحریروں سے ملا کر لکھنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ کام اپنی مختلف اشکال میں احباب کی رسائی تک پہنچتے ہیں، کبھی بذریعہ اخبارات تو کبھی جرائد کا حصہ بنتے ہیں۔ ستمبر 2011ء کو مادری زبان پنجابی میں کچھ کام کتابی صورت لہور دی وار میں آیا۔ اب اتہاسک لاہور حاضر خدمت۔

اتہاسک لاہور میں اُن ہوٹل کا تذکرہ ہے جو اُردو ادب میں گراں انجام دے گا اور قدر کی خدمات کے بعد جن کی موت کے بعد مدفون کا اعزاز لاہور کے مزار کو حاصل کیا گیا ہے۔ صرف اردو زبان کے الفاظ سے اس شہر میں بے شمار شمار آور شاعر، ادیب اور صحافی مدفون ہیں۔ اُن تمام مشاہیر کا احساس کرنے کے لیے شاید اس طرح دس کتب بھی کم ہوں۔ اُن میں چنیدہ نمائش کو اس کتاب کا حصہ بنایا گیا۔ اس سے مراد ہرگز نہیں کہ وہ مجسمہ جو اس کتاب کا حصہ نہیں، وہ بھی کسی سے کم تر۔ ہر ادیب، شاعر اور صحافی کا ایک خاص طرز تحریر اور طرز بیان ہوتا ہے۔ حضرت انسان کی تاریخ میں کوئی کسوئی ایجاد نہیں ہوا جو تحریروں کے معیار کو جانچنے کے تاریخ اس بات کی شاہد نے بھی کہا ہے کہ فلک نے کئی عظیم شعر اور ادبا کو دیکھا چشما نے اپنے آپ میں کوئی خاص تصور نہیں کیا۔ لیکن اُن کی زندگی کے بعد جب اُن کے کام کو سر نو میں دیکھا گیا تو وہ ادب کی عمارت کو مضبوط ترین ستون دیکھا۔ اس سے انگریزی زبان کے شاعر جان کیٹس کا نام کسی تعارف کا محتاج ہے۔ غور کیجیے تو تاریخ میں کئی درباری شاعر اور ادیب بھی دکھائے گئے جو شاہ مصاحب تھے اور اپنے بڑے نام لیکن وقت گزارنے کے ساتھ اُن کی پہچان ختم ہوتی تھی۔ زیر نظر کتاب کی تحقیق اور تحریر میں سب سے اہم اور اعلیٰ ترین سطح یہ ہے کہ کئی عظیم لوگ جن کے بے مثال درجے کا کام تھا، تقسیم کرنے کے بعد وہ کس طرح نئی نسلوں اور نسلوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ گئے ۔ ہمارے ہاں طلبا کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کہ تسلیم شدہ ہے لیکن وہ محمد دین تاثیر اور اختر شیرانی جیسے ناموں سے نابلد ہیں۔ اس کتاب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہماری نصابی کتب میں اکثر جگہوں پر یہ تحریر واضح طور پر کہتی ہے کہ جنگ آزادی یا غدر کے مسئلے کے بعد جدید تعلیم اور ترقی کو بند کر دیا گیا۔ جب اُردو ادب کی تاریخ کو دیکھا جائے اور خوشی سے یاد کیا جائے اور بیسز صد کے ادب پر ​​توجہ مرکوز کی جائے تو یہ سوال اپنی جگہ پر ہوتا ہے کہ ان کے انگریزوں کی بڑی تعداد میں مسلم شاعر، مسلم شاعر، خود سے آگئے۔ کئی خاندان بھی دکھاتے ہیں جن کا پس منظر انتہائی پڑھا لکھا۔ منٹو کے خاندان کو برسٹرز کا خاندان کہا جاتا ہے۔ سید لطیف کے خاندان کو آج بھی ان کے خاندان کا نام یاد کیا جاتا ہے۔ سب سے اہم ترین سوال کا عمومی رویہ۔ اس وقت تک میں کچھ حوالہ جات میں ایک مسلمان انڈین سول لسٹ شوکت علی شاہ کی آپ بیتی پور کا آدم خور سے پیش کر رہا ہوں۔

اتہاسک لاہور کی تحقیق اور تحریر میں ایک اور اہم پہلو مد کو بھی رکھا گیا ہے کہ لاہور مدفون میں اکثر بڑے شاعر اور ادیب پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی مادری زبان میں کام کیوں نہیں کیا؟ اگر تو قارین سے چھپا کیوں رہا؟ اگر آپ سے ان کا کوئی کام ملا تو آپ کو اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اردو زبان شاید دنیا کی واحد زبان ہے جس کی ایک بڑی خدمت دوسری زبان کے افراد یعنی اہل پنجاب نے کی ہے۔ اُردو اہل پنجاب کی ممنون سے آج تک اُردو۔

10-Days Buyer Protection

مکمل تفصیلات دیکھیں