جو گُزر گئی سو گُزر گئی | اسد سلیم شیخ | جو گزر گئی، سو گزر گئی۔ پروفیسر اسد سلیم شیخ
جو گُزر گئی سو گُزر گئی | اسد سلیم شیخ | جو گزر گئی، سو گزر گئی۔ پروفیسر اسد سلیم شیخ
جو گزر گئی، سو گزر گئی، پروفیسر اسد سلیم شیخ کی سوانح عمری ہی نہیں بلکہ میری ایک کہانی۔ وہ زمانہ جو اُن کی پیشی سے آج تک کا ہے۔ ان ماہ و سال میں معاشرہ کن غیرت سے گزرتا ہے، انہیں جاننے کے لیے یہ کتاب دلچسپ ہی نہیں انتہائی معلومات افزا بھی ہے۔ یہ ایک الگ شخصیت کی داستانِ حیات ہے جو اپنی جگہ جوانی سے تعلیم، ادب اور قلم سے نکلا ہے۔ پروفیسر اسد سلیم شیخ نے کمال ہنر سے اپنی داستان حیات کو میری کہانی سے جوڑ کر ایک شان دار سوانح تحریر کر دیا، گویا یہ آپ کی بیتی، جگ بیتی بھی ہے۔ سوانح نگاری، تاریخ نگاری مختلف صنف ادب سے ہے، یہ سائنس نہیں آرٹ ہے اور اس کے لیے سوانح نگاری حاصل ہوتی ہے جس میں حسن نظر بنانے کی قوت اور سلیقہ ہوتا ہے کہ میری تحریر اور لوگوں کے لیے آپ کو پسند ہونا۔ اس کتاب کو پڑھ کر جہاں پروفیسر اسد لڑاکا شیخ صاحب کے پن، جوانی، اُن کی بستی پنڈی بھٹی، اُن کے خاندان اور اُن کی ذاتی زندگی کے مخفی پہلوؤں سے خوشی ہوتی ہے، وہ گزر جاتی ہیں، سو گزر جاتی ہیں میرے وطن۔ ان زمینوں کی ان کی تاریخ بھی۔ سماج کی ان کروٹوں کی کہانی جو گراموفون سے ریڈیو ٹرانزسٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن، سمارٹ فون سے ہوتا ہے دنیا کے دور میں داخل ہوتا ہے۔ اس طرح کے کردار اور روایات جو اب اس کتابوں سے ہی ملتی ہیں
پروفیسر اسد سلیم شیخ ایک معروف ادیب اور مؤرخ ہیں، جو قبول کرتے ہیں، سو گزرگئی“ سب سے بہترین دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کسی عام ادیب کی بس کی بات ہے۔
فرخ سہیل گوئندی
شیئر کریں۔
10-Days Buyer Protection
مکمل تفصیلات دیکھیں