مصنوعات کی معلومات پر جائیں
1 کی 1

تیریپ کی تراکی | ولیم برسٹین | یورپ کی ترقی | ولیم برنسٹین

تیریپ کی تراکی | ولیم برسٹین | یورپ کی ترقی | ولیم برنسٹین

باقاعدہ قیمت Rs.400.00
باقاعدہ قیمت Rs.800.00 فروخت کی قیمت Rs.400.00
فروخت بک گیا۔
چیک آؤٹ پر شپنگ کا حساب لگایا جاتا ہے۔

پہلی بار جب مہر معاشیات اور فلسفی۔  آدم سمتھ

 خوشگواری کے لیے ضروری شرائط کی امن، آسان ٹیکسز اور عادل قسم کے مناسب حل کی صورت میں تب سے 250 کے بعد عدالت میں معاشرے نے اس کی سادہ ترکیب میں کچھ چھان پھٹک کی ہے۔ دو راجید میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو رہی ہے کہ ترقی ہی معاشی افزائش کا اصل سرچشمہ ہے۔ دماغ کے استعمال سے ایجادات، ترقی، پیداوار اور آخر کار صرف کوشش کی تلاش سے ہم قابل تفہیم اقتصادی ترقی کے قابل عمل ڈھانچہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ اگر ہم معاشی ترقی کو سمجھ سکتے ہیں تو پھر قوم کی قسمت کی خاکہ کشی بھی کر سکتے ہیں۔

اس کتاب کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ کسی قوم کے ادارے ہی اس کی مدت پر محیط خوشحالی اور مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے اس قوم کے قدرتی وسائل، اس کی ثقافتی استحکام، قوت و جبروت، سیاسی و معاشی استحکام یہاں تک کہ فوجی شجاعت کا بھی دخل نہیں ہوتا۔ خوشحالی کا یہ نتیجہ چار صورت حال / اداروں سے ملتا ہے۔ ان میں سے کوئی ادارہ بھی رہنما ہو تو انسانی ترقی میں کاروبار پیدا ہوتا ہے۔ جب بھی کسی ملک میں یہ چاروں اداروں کا روبہ عمل ہوتا ہے تو انسانی ذہانت تخلیق اور تنظیم کے ادارے ہر بازار میں سامنے آتے ہیں۔ ایجاد و اختراع میں توسیع ہوئی اور قوم کی خوش حالی نے اس ایجادو اختراع کے قدم چومے کے پیچھے چلی۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت کو ٹیکنالوجی کے موجدوں کے لیے ترغیبات تیار کرنے کے لیے مناسب ہیں۔ اگر ایجادات کا کہنا ہے کہ ترقی کی صورت میں قدیم میں کوئی ترقی نہیں ہوتی تو چین سے کوئی ترقی نہیں ہوتی۔ لہذا بہت خوشحالی کے لیے سب سے اولین ضروری ملکیتی حقوق کا تحفظ۔ 'قابل برداشت کے عادلانہ' کاروبار میں ثمرات اگر معقول حد تک محفوظ نہ ہوں، تو پیداوار کرنے والے اور ایجاد کرنے والے ناپید ہو جائیں۔ اگر مزدور کو اپنی اجرت کا زیادہ حصہ نہیں بچا تو وہ طاقت نہیں کرے گا۔ ملکیت کو کئی اطراف سے لاحق ہو

کر سکتے ہیں۔ جرات مندانہ افراد، جابر حکمران اور کبھی کبھار اچھی نیت کے حامل شہری بن سکتے ہیں اور کسی فلاحی ریاست کو بھی تقویت اور پاکیزہ بن افراط پر قابو نہ رکھنے کی ملکیت یا قرض کے لیے خطرہ ہیں۔ کلیدی تصور اس میں یہ ہے کہ تقسیم کی تقسیم کر کے حکومتی قانون کی عملداری کے ذریعے اور آزاد عدلیہ کے ذریعے مالکانہ حقوق کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ اس کی بات یہ ہے کہ کسی حکمران کا موقف ہی نہیں دینا اور عادل نہیں کیوں کہ ہو شخصی فرمان اور مانی اس کی قانونی حیثیت رکھتا ہے۔ اصولی طبقہ سے بالکل الگ تھلگ بے تعلق اور بے لاگ عدلیہ کے علاوہ کسی کا فرمان بھی قابل قبول نہیں۔ جو قانون اختیار کرنے سے ہر صورت میں برابری نہیں ہوتی وہ قانون کہل کا مستفید ہوتا ہے۔

اگر قدیم یونان اور رومی جمہوریہ میں ہی پہلی بار قانون کی عملداری کا شکریہ ادا کیا گیا تھا لیکن پانچ صدوں سے چار سے زیادہ تک رومی جمہوریہ کے رد عمل کی وجہ سے یہ قانون کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے۔ قرون وسطی کے دوران یہ دوبارہ برطانیہ میں ظہور تصور ہوا ۔ بیسز صد افسوسناک سیاسی تجربہ نے ہمیں درست کہا لیکن حقیقت پر متنبہ۔ صرف موثر عدلیہ کا وجود کافی نہیں ہے، عام طور پر حکمرانوں کی طاقت۔ الگ الگ ہونا چاہئے اور اس کے فیصلوں کا سب پر اطلاق ہونا ضروری ہے۔

سمتھ کے الفاظ میں ٹیکس کا نظام بہت آسان اور آسان ہونا چاہئے کیونکہ ریاست عوام سے زیادہ نہیں لے سکتی۔ یہ بہت زیادہ کی حد تک ہے؟ امریکہ اور یورپ کی فلاحی ریاستوں کے تجربے سے ایک خام تخمینہ لگا یا جا سکتا ہے۔ ایک خوشحال قوم اپنی پیداوار کا  30 فیصد آسانی سے برداشت کر سکتے ہیں کہ امریکہ میں جب حکومتیں شمالی یورپ سے بہت سارے ممالک کی طرح %50% کی حد تک پہنچ جاتی ہیں تو تب معاشی افزائش پر۔

بھیانک اثرات

دوسری بات یہ ہے کہ موجدوں کے پاس مناسب علمی ہونا ضروری ہے۔ ایک مہر مستری اپنے ہتھو، آری یا بڑے پیمانے پر بالکل بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ایک موجد بھی اپنے ماحول کی ترجمانی کرنے والے موثر علمی ڈھانچہ کے بغیر مفلوج۔ 1600ء سے پہلے یونان، روم، چین، ہندوستان اور یورپ کے ذہین نیچرل فلسفی بھی تصور اور علمی ڈھانچہ درست اور اک سے عاری تھے۔ مغربی فرد کا ضمیر اعلیٰ ادب فنون اور فنون لطیفہ میں پنہاں نہیں، ان علوم کے سرچشمے یونان اور روم کی ثقافت سے پھوٹے ہیں، بلکہ مغربی شخص کا ضمیر تجربہی چھان پھٹک کی تیز و تند روشنی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے عقائد کو سرنگوں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سی منظر میں محصور ہے ۔ باقی دنیا سے ممتاز ہے ۔ یونان کی سائنس اور منطق تو بہت با سطوت تھی لیکن وہ حقیقی دنیا کی تلخ حقیقتوں کا نقاب نہ پلٹ بدل اور وہ انسان کو فطرت کا قابل بھروسہ مفید ثابت کرنے میں ناکام و نامادر۔ سائنسی طرز فکر کے زیر اثر صرف تجربہی میلان ہی اکیلا مناسب طریقے سے، کافی جانا۔ سماجی اور مذہبی

10-Days Buyer Protection

مکمل تفصیلات دیکھیں